Monday, January 03, 2011

بازار ۲

کافی سال پہلے میں  بازار میں  اپنے ایک دوست کی دکان سے کپڑے کی خریداری  کے لئے گیا۔ ابھی وہ دوسرے گاہکوں سے نپٹ رہا تھا اور میں دروازے کے قریب پڑے سٹول پر بیٹھ گیا۔ سٹول جس دیوار کے ساتھ پڑا تھا وہ دیوار جوتوں والی دکان کی تھی۔ جس کے باہر جوتوں کے شوکیس کے سامنے دو لڑکیاں بظاہر جوتوں کا انتخاب کرتے ہوئے آپس میں گفتگو فرما رہی تھیں۔
پہلی: ادھر تو مزا ہی نہیں آرہا۔ کوئی رش ہی نہیں ہے۔
دوسری: اس بازار میں چلتے ہیں وہاں کافی لڑکے آتے ہیں۔
پہلی:جلدی چلوپھرہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟
وہ تو چلی گئیں اور میں سوچتا رہ گیا کہ ان دونوں کا بازار میں آنے کا مقصد کیا تھا۔
ِ
واپسی پر بے پناہ رش میں میرے آگے چلتے ہوئے لڑکے پر لوگ کافی توجہ دے رہے تھے مجھے اس کی وجہ اس کے تنگ کپڑے لگے  جس میں سے اس کے جسم کا ایک ایک خم واضح دکھائی دے رہا تھا۔
اسی اثنا میں دائیں والی دکان کے تھڑے پر بیٹھا ہو الڑکا اُٹھا اور نعرہ لگایا "میں تے اینوں گھر ای چھڈ کے آواں گا"
"میں وی نال جاواں گا" سامنے تھڑے پر بیٹھا لڑکا بھی چلایا۔
دونوں نے چھلانگیں لگائیں اور بازار میں اس لڑکے اور میرے درمیان آگئے جسے اب میں نے غور دیکھا تو وہ تنگ جینز شرٹ پہنے ،سر پر کاؤ بوائے ہیٹ اورپاؤں میں جوگرز پہنے لڑکی تھی۔ مچھلی بازار میں شدید رش کی وجہ سے ہمارے چلنے کی رفتار کافی سست تھی۔ اس لئے دونوں لڑکوں نےکسیرا بازارمیں مڑتی اس لڑکی کو پوری تسلی کے ساتھ چھیڑا ۔ جواباً اس نے دونوں کو اس طرح  گھورا۔ جیسے دونوں سے اب بھی کچھ کمی رہ گئی ہو اور آگے بڑھ گئی۔

بازار میں اس طرح کے واقعات اور لوگوں سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ جو پھر وقتاً فوقتاً مجھے سنائی/دکھائی دیتے رہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے مجھے یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ میرے اندازے کہ مطابق کہ تقریباً بازار میں ایسے افراد چھ سے  آٹھ فیصد ہی ہوتے ہیں اور ان میں مرد و خواتین کی تعداد تقریباً برابر ہوتی ہے۔
پھرایک دن گوگل بھائی اپنے حواریوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ ایسے واقعات کیوں پیش آتے ہیں تو ان سے ہوا مکالمہ پیش خدمت ہے  جس میں کچھ حصوں کو مجبوراً حذف کرنا پڑا ہے۔

گوگل:حذف شدہ

وکی پیڈیا: گوگل بھائی ہر بندہ فحش معلومات حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس نہیں آتا۔ بھئی میں آپکو سمجھاتا ہوں جب ایک نارمل مرد جونہی کسی متناسب جسم کی طرف دیکھتا ہے اس کے جسم میں دو قسم کے ہارمونز  ٹیسٹوسٹرون اور ایسٹروجن کا اخراج  بڑھ جاتا  ہے۔ اور یہی ہارمونز شہوانی جذبات کو ابھارتے ہیں اور مرد کو مخالف جنس سے ملاپ کی طرف جانے پر مجبور کرتےہیں۔ لیکن ان ہارمونز کے اثرات کچھ ہفتوں یا مہینوں سے زیادہ نہیں رہتے۔ لیکن اس دوران اگر فریق مخالف ایک ہی رہے تو یہ شہوانی جذبات مرد کی فریق مخالف کی جانب کشش کو بڑھاتے رہتے ہیں۔ اس کشش کے جسم مستقل فیرومونز،ڈوپامین نوریپائن فرائناورسیروٹونین جیسے ہارمونزپیدا کرتا رہتا ہے۔جو ایمفیٹامینز جیسے ہارمونزکی طرح کام کرتے ہیں اور دماغ کے pleasure centerکو چھیڑتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دل کی دھڑکن تیز ہوجانا ،بھوک کم لگنا اور نیند کی کمی جیسے سائیڈ افیکٹس ہوسکتے ہیں۔اور شدید مزے کی حالت رہتی ہے۔ ان ہارمونز کااثر ایک سے ڈھائی سال تک رہتا ہے۔ شہوت اور کشش دونوں ہی وقتی حالتیں ہیں اورلمبے ساتھ کے لئے ایک تیسری حالت قربت ہوتی ہے جس کا نتیجہ شادی اور بچوں کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس حالت میں آکسی ٹو سیناورواسوپریسین جیسےہامونز کی مقدار جسم میں بڑھ جاتی ہے۔ یعنی یہ سارا چکر ہارمونز کا چلایا ہوا ہے۔

میں: مرد عورتوں اور عورتیں مردوں کی طرف دیکھتی ہی کیوں ہیں۔ تاکہ یہ سارا چکر شروع ہی نہ ہو۔

وکی پیڈیا: اصل میں یہ ہارمونز جسم میں اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح بھوک یا پیاس کے ہارمونز کام کرتے ہیں۔ جس طرح بھوک یا پیاس مختلف ماحول، حالات اور واقعات کے نتیجے میں بڑھتی یا کم ہوتی ہے اسی طرح یہ ہارمونز بھی ماحول ، حالات اور واقعات کے نتیجے میں اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ لیکن مردوں اور عورتوں میں ان کے اخراج کا آغاز مختلف طرح سے ہوتا ہے۔ مرد میں جنس مخالف کے جسم کے مختلف حصوں کی ساخت، توازن یا ان کی برہنگی کو دیکھ کر ہی ان ہارمونز کے اخراج کا آغاز ہو جاتا ہے اس کے جذبات ابھرتے ہیں۔ جبکہ عورت مرد کی خوشبو ، اس کے کندھوں ، بالوں، ہاتھ اور اس کے جسم کے مختلف ابھاروں کو دیکھتی ضرور ہے لیکن اس کے جذبات اس سے ابھرتے نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے رومانوی تخیل سے اپنے جذبات کو ابھارتی ہے۔ رومانوی ماحول اور باتیں اس کے ہارمونز کے اخراج میں ردوبدل کا باعث بنتی ہیں۔یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس وقت اس کا موڈ، ماہواری کا وقت، دولت ،حفاظت یہ سب اس کے ہارمونز کو کنٹرول کرتے ہیں۔ویسے یہ بھی ضروری نہیں کہ مرد بھی ضرور فوری طور پر متاثر ہو جائے۔ لیکن مخلوط ماحول میں یہ کسی وقت بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

میں: لیکن بازاروں میں نظر آنے والے مذکورہ افراد کس مرحلے میں موجود ہوتے ہیں؟

وکی پیڈیا: شہوت، کشش اور قربت کے مرحلوں کو واضح طور پر علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تصویر دیکھو ذرا۔

ماحول یا حالات ان مرحلوں کی شدت میں اضافہ کر سکتےہیں۔ یہ نشے کی طرح بھی ہوسکتا ہے۔ جذبات پر کنٹرول اس حد تک بھی کم ہو سکتا ہے۔ کہ ماہر نفسیات کے پاس جانا پڑے جیسے کافی لوگ اپنی پریشانیوں یا الجھنوں سے فرار کے لئے ایسی لذت کو مدد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اور مستقل طور پر اس میں الجھ جاتے ہیں۔
میں:لیکن سنا ہے کہ مغربی معاشروں میں تو مرد عورتوں کودیکھتے ہی نہیں ہیں وہاں اس سارے عمل کا آغاز کس طرح ہوتا ہے؟

گوگل: (حذف شدہ گالی) وہاں اتنی مقدار میں بن بیاہی بچیاں کیا خود بخود ہی ماں بن جاتی ہیں؟

یہ سن کر بہت ساری ویب سائٹوں نے اکٹھا ہی بولنا شروع کر دیا اور مجھے کسی بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ میں نے گوگل بھائی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہے تھے۔
میں چپکے سے اُٹھا اور باہر آگیا۔



نوٹ: اس پوری پوسٹ کو میں نے مذہب سے دور رکھا ہے اس لئے تبصروں کو بھی مذہب سے دور رکھوں گا۔

9 comments:

  1. بات رکھنے بہت ہی خوبصورت انداز ہے صابر بھائی۔ لطف آ گیا۔ ویسے ہم نے نصف کے قریب پوسٹ پڑھ لی پھر پوسٹ کے مزاج کا پتہ چلا تو شروع سے دہرایا۔

    ReplyDelete
  2. ارے یہ تو سب قصور ہارمونوں کا نکلا اور ہم خواہ مخواہ شیطان کو ذمہ دار سمجھتے رہے۔
    دلچسپ اور معلوماتی تحریر کیلیے شکریہ جناب

    ReplyDelete
  3. پہلے تو مجھے ايسے لگا کہ آپ راولپنڈی راجہ بازار کی طرف سے بازار کلاں ميں دوست کی دکاں پر کپڑا خريد کرنے گئے تھے اور وہاں سے بازار کسيراں کی طرف روانہ ہوئے يعنی مری روڈ يا تيلی محلہ کی طرف رُخ کيا

    مزيد احوال ميں واضح نہيں لکھنا چاہتا کہ تعزيراتِ جديد کی زد ميں آ جائے گا اور شامت مُلا کی آ جائے گی

    ساڑھے چھ سال قبل جب بلاگ شروع کيا تو اپنی ڈگری گاؤن پہنے والی تصوير شائع کی پھر تنگ آ کر چار سال قبل اپنی سفيد داڑھی والی شائع کر دی پھر بھی جوان لڑکياں گپ لگانے کے پيںام بھيجتی رہيں ۔ تنگ آ کر ميں نے گپ پر پابندی لگا دی ۔ کسی نے کہا کہ فيس بُک کے رُکن بن جاؤ تو بن گيا ۔ ابھی چند ماہ گذرے تھے کہ تنگ آ کر صرف اپنے بچوں اور قريبی عزيزوں تک محدود کر ديا ۔
    جس بات پر ميں حيران ہوتا ہوں يہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس اتنا وقت کہاں سے آتا ہے کہ ہر ايرے غيرے سے گپ لگاتے پھرتے ہيں ؟

    ReplyDelete
  4. کہتے ہیں جس کو 'عشق' خلل ہے ہارمونز کا۔۔۔
    یہ محبت وغیرہ بھی شعراء حضرات نے گلوریفائڈ کی ہوئی ہے
    ورنہ جی اصل قصہ تو وہی افزائش نسل کا ہے
    الا یہ کہ حفاظتی تدابیر اختیار کرکے، طلب تو مٹا لی جائے
    اور ذمہ داری سے جان چھڑالی جائے

    ReplyDelete
  5. آپ نے ہارمونز کی تفصیلات دیں۔ آپکو شاید یہ بھی معلوم ہوگا کہ یہی ہارمونز جانوروں میں بھی بالکل اسی طرح کام کرتے ہیں۔ جانوروں میں وہیل مچھلی اور چوہے سے لیکر ہاتھی تک شامل ہیں۔
    مورنی اس مور کی قربت چاہتی ہے جو خوبصورت پر رکھتا ہو اور اچھا ناچ کر دکھا سکتا ہو۔ شیروں اور بلیوں اور دیگر جانوروں میں مادہ کے حصول کے لئے جنگیں ہوتی ہیں اور اکثر اوقات ایک فریق دوسرے کو جان سے مار دیتا ہے یا مہلک زخم دیتا ہے۔ آپ نے اسے اگرچہ مذہب سے دور رکھنے کا دعوی کیا ہے مگر ایسا لگتا نہیں۔
    چونکہ جانور اور انسان ایک جیسے ہارمونزرویہ رکھتے ہیں اور آپکی دی گئ ہارمونل تفصیلوں سے آپ یہ نتیجہ کیوں نہیں اخذ کرتے کہ ڈارون جب انسان کو جانوروں کی صنف میں لاتا ہے تو غلط نہیں کہتا۔
    جناب، آپ یہاں ایک بات بھول گئے ہیں اور وہ یہ کہ انسان اور جانوروں میں ایک فرق ہے واضح اور وہ یہ کہ انسان اپنا معاشرے اور ماحول کی تشکیل میں دلچسپی رکھتا ہے۔
    ایک نر بندر جب بھی اسے کوئ مادہ بندر بھائے اپنے ہارمونز کی سرگرمی کی بناء اسکی قربت کی خواہش کر سکتا ہے۔ چپمپینزی میں وہ چمپینزی جو انسان سے اٹھانوے فی صد جینیاتی مشابہت رکھتے ہیں ان کے جھگڑے نبٹانے، فارغ اوقات کا کام ، تفریح، جشن ہر چیز صرف ایک چیز پہ مرکوز رہتی ہے اور وہ ہے جنس۔ جسے انسان بالکل اسی طرح اختیار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ پھر ہم ایک جنگل کے باسی کہلائیں گے۔ انسان نہیں۔
    مرد انسان ہوں یا عورتِں انسان، ہر ایک کو سماجی دائرے کار کی تربیت دی جاتی ہے۔ کسی متناسب جسم اور خدو خال کی خاتون کو دیکھ کر جذبات منتشر ہو سکتے ہیں مگر کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جائے کہ عورتیں گھر کی چہار دیواری می اس طرح بند ہو جائیں کہ دیگر انسانوں کو یہ بھی نہ پتہ چلے کہ دنیا میں عورت نام کی مخلوق پائ جاتی ہے اور غیر متوازن حالت اس طرح بڑھ جائے کہ افغانستان کے متعلق ایک رپقرٹ میں مردوں کی ایک بڑی تعداد نے اس چیز پہ حیرت کا اظہار کیا کہ عوروتوں سے بھی قریب ہو جا سکتا ہے۔
    انسانی معاشرہ ہر دو اصناف سے مل کر بنا ہے۔ اور انکی تربیت اگر انسانی بنیاد پہ نہ ہو تو آخر میں صرف ہارمونز بچ جاتے ہیں۔
    آپ کو شاید معلوم ہو کہ انسان جنگ و جدل کے بھی ہارمونز رکھتا ہے۔ لیکن اسکے باوجود اسے مختلف سماجی دباءو میں رکھ کر اس بات پہ مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ امن سے رہنا سیکھے۔ کیونکہ اسی میں انسانی نسل کی بقاء ہے۔
    جنگل ہارمونز ی حکمرانی کی دنیا ہے اور انسانی معاشرہ مسلسل تربیت اور خود پہ اور اپنے نفس پہ قابو پانے کے گر سکھانے کی دنیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
    اگر ایسا نہ ہو تو مرد روزی روزگار کے لئے گھر سے نہ نکل سکیں اور عورتیں اپنے بچوں کی پرورش کے نختلف مراحل میں گھر سے باہر نہ جا سکنے کی بناء پہ صرف پیدائیش کی مشین بن جائیں اور تربیت انکا کام نہ رہے۔ وہ عورت جو اپنے ماحول سے آگاہ نہیں وہ اپنے بچوں کو کس بات کی تربیت دے گی۔
    معاشرے کو اخلاقی طور پہ بیتر طبنانے کی ذمہ داری دونوں پہ عائد ہوتی ہے۔ لیکن دونوں کی تےربیت میں اس چیز کو توازن کی حد میں رکھنا چاہئیے ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک مرد کے ہارمونز ایک ڈھائ سال کی پیاری سی بچی کو دیکھ کر بھی قابو میں نہ رہیں۔ اور نہ ایسا ہو سکتا ہے اپنے ہی گھر کی پیاری خواتین کو جن سے اسکا حرام کا رشتہ ہو حرامکاری کرنے کو دل چاہے۔
    چونکہ آپکے اخذ کردہ نتیجے کے مطابق مردوں کے ہارمونز زیادہ سرگرم ہوتے ہیں اور خدا جانے کس بناء پہ خواتین کے کم تو اسکاایک اور مطلب یہ نکلتا ہے کہ مردوں کی تربیت میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ انہیں اپنے ہارمونز کو کس طرح قابومیں رکھنا ہے۔ تاکہ ہم سب جس میں خواتین کی بھی بڑی تعداد ہے جس میں چھوٹی بچیاں بھی ہیں اور گھر کی عورتیں بھی وہ سب احساس تحفظ کے ساتھ رہ سکیں۔

    ReplyDelete
  6. سعود بھائی شکریہ۔آپ کے الفاظ نے بہت ہمت بڑھائی ہے۔

    سعد بھائی یہ سائنسی مضمون تھا۔ شیطان کا ذکر فلسفے کے مضمون میں۔

    اجمل انکل میں راولپنڈی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اس لئے اس بات کا مزہ نہیں لے سکا۔

    جعفر بھائی سمجھ نہیں آئی کہ بیان حق میں گیا کہ مخالفت میں۔

    ReplyDelete
  7. عنیقہ ناز
    جی ہاں ہارمونز جانوروںمیں بھی ہوتےہیں اور وہ اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔جہاں تک مجھے پتہ ہے ڈارون اپنی تھیوری میں ہارمونز کو تو لے کر آتا ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو ماحول کی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عادات سے جانداروں کے ارتقاء پر بات کرتا ہے۔چونکہ انسان بھی پیدا ہوتا ہے جوان ہوتا ہے اسے بڑھاپا آتا ہے اس کو بھی بھوک لگتی ہے نیند آتی ہے تھکاوٹ ہوتی ہے بیمار ہوتا ہے اور بہت سے متماثلات کیا اس کو جانوروں کی صنف میں لانے کے لئے اتنا ہی کافی نہیں۔
    انسانوں کی طرح بعض جانور بھی اپنا خاندان بناتے ہیں اپنی سرحدیں متعین کرتے ہیں اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں اور اس اپنے بنائے ہوئے نظام کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔
    اس لحاظ سے انسان تو جانوروں کی فہرست میں ہی شامل ہونا چاہیے اوراس پوسٹ کو میں نے سائنس کی حد تک محدود رکھا ہے۔ اور ان سارے ہارمونز کے افعال کو سائنس ابھی اپنی کسوٹی پر پرکھ رہی ہے۔ مذہب اس پوسٹ سے آگے شروع ہوتا ہے۔ جس کی اگر میں بات شروع کروں تو ہو سکتا ہے کہ آپ میں اور مجھ میں شدید اختلاف شروع ہو جائے۔ کیونکہ آپ مذہب کی اپنی سمجھ بوجھ اور مشاہدات کی بنیاد پر تشریح کریں گی اور میں اپنی۔ اس لئے میں نے مذہب کو چھیڑا ہی نہیں اور تربیت کا ذکر بھی اسی لئے نہیں آیا۔ اور اس حوالے سے تشنہ سوالات اور ان کے جواب کا حصول قاری پر چھوڑ دیا ہے۔

    ReplyDelete
  8. صابر صاحب بہت عمدہ تحریر۔۔۔گو کہ اس طرح کے موضوعات پر شادی کے بعد بھی بات کرنا میرے لیے ہمیشہ بہت مشکل رہا ہے کہ اب میں خود کو ایک ماں کی نظر سے دیکھتی ہوں۔۔۔ماں جو خود مضبوط ہوگی۔۔خود آگاہ ہوگی تو ہی اپنے بچے کی صحیح تربیت کرسکے گی۔

    آپ نےتحریر کوسائنسی کی حد تک رکھا ہے لیکن میں چاہوں گی کہ تربیت کے لحاظ سے بھی ایک عمدہ سی تحریر ضرور لکھیں۔۔۔مجھے خوف اور بےخوفی کا درمیانی راستہ اپنے بچے کو دینا ہے انشاءاللہ

    ReplyDelete
  9. شکریہ امن ایمان
    اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ ڈیڑھ سال پہلے کیا اور ایک ڈرافٹ کاپی اپنے بلاگ پر بنا دی۔ اس کے بعد جن جن مراحل سے گذرا اس پر ایک اور بلاگ پوسٹ لکھی جا سکتی ہے۔
    رات خوش قسمتی سے بیٹھے سارا مضمون مکمل بھی ہوا اور پوسٹ بھی ہو گیا۔ کوشش کی کہ احباب اس طرف نہ جائیں جہاں یہ موضوع ہمیشہ لے جاتا ہے۔
    تربیت پر لکھنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ابھی میری تربیت بھی مکمل نہیں ہوئی۔ اور صحیح تربیت کا آغاز ہی آگاہی کے انجام سے شروع ہوتا ہے۔
    پوسٹ سے ہٹ کر ایک بات جو میں لکھنا چاہوں گا کہ
    اللہ کا خوف ، باقی ہر چیز سے بے خوفی پیدا کرتا ہے۔ لیکن اللہ کا خوف کیسی نعمت ہے؟ یا یہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟ یہ راز صرف وہی بتا سکتا ہے جس میں واقعی اللہ کا خوف موجود ہو۔

    ReplyDelete