بچوں کا استحصال دنیا کے ہر معاشرے کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ایک طرف امریکی ریپ سنٹر میں تین اور چار سال کے ان بچوں کا علاج ہو رہا ہے جن کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ تو دوسری طرف عامر خان جب ٹی وی پر ایک ایسے شو کا آغاز کرتا ہے جس میں ہندوستان جیسے بڑے ملک کے بڑے ایشوز پر وہ بات کرنا چاہتا ہے اور اس کا حل پیش کرنا چاہتا ہے تو دوسرا ہی پروگرام وہ بچوں کے استحصال پر کرتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں اس مسئلہ کی صورتحال کتنی گھمبیر ہے۔
Monday, September 03, 2012
Tuesday, January 18, 2011
گوگل سائنس فیئر کا انعقاد کر رہا ہے۔ ۱۱ جنوری سے شروع ہوئے اس ایونٹ میں اینٹریز بھیجنے کی آخری تاریخ چار اپریل ہے۔ججز جیتنے والے کے نام کا اعلان ۱۱ جولائی کو کریں گے۔ ۱۳ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے طالبعلم اس میلے میں حصہ لے سکیں گے۔ کیوبا، ایران، شمالی کوریا، برما ،شام، زمبابوے اور دیگر ایسے ممالک جو امریکہ کے زیراعتاب ہیں ان کے بچے اس میلے میں حصہ نہیں لے سکتے۔
Sunday, January 16, 2011
Friday, January 14, 2011
گوگل اینڈرائیڈ کے لئے مترجم اطلاقیہ
گوگل نے اینڈرائیڈ فون کے لئے ایسا اطلاقیہ تیار کیا ہے جو real time میں بولی جانے والی زبان کا ترجمہ کر لیتا ہے۔ ابھی تو یہ واکی ٹاکی کی طرح کام کر رہا ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ جلد ہی یہ عام بات چیت کا بلا تاخیر ترجمہ کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
Monday, January 03, 2011
بازار ۲
کافی سال پہلے میں بازار میں اپنے ایک دوست کی دکان سے کپڑے کی خریداری کے لئے گیا۔ ابھی وہ دوسرے گاہکوں سے نپٹ رہا تھا اور میں دروازے کے قریب پڑے سٹول پر بیٹھ گیا۔ سٹول جس دیوار کے ساتھ پڑا تھا وہ دیوار جوتوں والی دکان کی تھی۔ جس کے باہر جوتوں کے شوکیس کے سامنے دو لڑکیاں بظاہر جوتوں کا انتخاب کرتے ہوئے آپس میں گفتگو فرما رہی تھیں۔
پہلی: ادھر تو مزا ہی نہیں آرہا۔ کوئی رش ہی نہیں ہے۔
دوسری: اس بازار میں چلتے ہیں وہاں کافی لڑکے آتے ہیں۔
پہلی: ادھر تو مزا ہی نہیں آرہا۔ کوئی رش ہی نہیں ہے۔
دوسری: اس بازار میں چلتے ہیں وہاں کافی لڑکے آتے ہیں۔
Thursday, December 30, 2010
بال پر دوری جدول
یونیورسٹی آف نوٹنگم کے نینو ٹیکنالوجی سنٹر کا اپنےکیمسٹری کے پروفیسر Martyn Poliakoff کی سالگرہ پر انوکھا تحفہ۔
ان ہی کے ایک بال پر گیلیم آئنز کی مدد سےدوری جدول کنندہ کرکے انہیں تحفہ میں دیا گیا۔
پروفیسر صاحب کی خوشی دیدنی ہے۔
ان ہی کے ایک بال پر گیلیم آئنز کی مدد سےدوری جدول کنندہ کرکے انہیں تحفہ میں دیا گیا۔
پروفیسر صاحب کی خوشی دیدنی ہے۔
Friday, October 15, 2010
بازار
اپنے روزگار کے سلسلے میں تقریبا تین سال ہر روز بازار سے دو دفعہ پیدل گزرہوتا رہا ہے۔ کافی نئے مشاہدات کا سامنا رہا۔ پہلا مشاہدہ جو مجھے ہوا کہ بازار میں خواتین گاہکوں کی تعداد مرد دکانداروں اور گاہکوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔ دوسرا یہ کہ خواتین کی اکثریت بازار آنے سے پہلے بیوٹی پارلر سے ہوکر آئی ہے۔ خیر وجوہات جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ ایسا کیوں ہے؟ لیکن کچھ عرصہ میں ارد گرد خواتین کی ہونے والی گفتگو سے پتہ چلا کہ ایسا صرف اس لئے ہوتا ہے کہ دکاندار عزت سے پیش آئے یا انہیں غریب نہ سمجھے۔
لیکن کچھ اور مشاہدات کے نتیجے میں ایک اور بات سامنے آئی کہ بازار میں کچھ خواتین بکاؤ بھی موجود ہیں جن کی خریداری کے لئے آپ مخصوص دکانداروں سے رجوع کر سکتے ہیں ۔ ایسی خواتین عموما عمدہ بناؤ سنگھار کے ساتھ دکان میں کافی دیر تک موجود رہتی ہیں اور وہ دکاندار ان کی بے حد عزت کرتے ہیں۔ جب دوسری خواتین ان کے ساتھ دکانداران کا رویہ دیکھتی ہیں تو سنگھار میں ان سے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ دکاندار ان سے بھی اسی رویے کا مظاہرہ کرے اور وہی رعایت دے۔ لیکن اس سارے چکر میں شاید وہ بھول جاتی ہیں کہ جو دکاندار غریب یا سادہ لوح گاہکوں کو گھاس نہیں ڈالتے انہوں کی مثال ان چمگادڑوں کی طرح ہے۔جو سارا خون بھی چوس جائیں تو بھی شکار کو پتہ نہیں چلتا۔
بہرحال یہ میرا مشاہدہ ہے۔ اس سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتاہے۔ اورمیرا بحث کا ارادہ بھی کوئی نہیں ہے۔ آپ کے مشاہدات کے لئے کمنٹس مشروط طور پر کھلے ہیں۔
جاری ہے۔
ِ
لیکن کچھ اور مشاہدات کے نتیجے میں ایک اور بات سامنے آئی کہ بازار میں کچھ خواتین بکاؤ بھی موجود ہیں جن کی خریداری کے لئے آپ مخصوص دکانداروں سے رجوع کر سکتے ہیں ۔ ایسی خواتین عموما عمدہ بناؤ سنگھار کے ساتھ دکان میں کافی دیر تک موجود رہتی ہیں اور وہ دکاندار ان کی بے حد عزت کرتے ہیں۔ جب دوسری خواتین ان کے ساتھ دکانداران کا رویہ دیکھتی ہیں تو سنگھار میں ان سے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ دکاندار ان سے بھی اسی رویے کا مظاہرہ کرے اور وہی رعایت دے۔ لیکن اس سارے چکر میں شاید وہ بھول جاتی ہیں کہ جو دکاندار غریب یا سادہ لوح گاہکوں کو گھاس نہیں ڈالتے انہوں کی مثال ان چمگادڑوں کی طرح ہے۔جو سارا خون بھی چوس جائیں تو بھی شکار کو پتہ نہیں چلتا۔
بہرحال یہ میرا مشاہدہ ہے۔ اس سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتاہے۔ اورمیرا بحث کا ارادہ بھی کوئی نہیں ہے۔ آپ کے مشاہدات کے لئے کمنٹس مشروط طور پر کھلے ہیں۔
جاری ہے۔
ِ
Subscribe to:
Posts (Atom)